"جسم و جان سے آگے"
" جسم و جان سے آگے" ( افسانہ)
ممبئی کی تنگ گلیوں سے نکل کر اس کی ٹرین جب "چندن پور" کے اسٹیشن پر پہنچی تو رات کا پچھلا پہر تھا ۔ سر کے اوپر کُھلا بے شمار ستاروں کے قُمقموں سے سجا آسمان ، ایک طرف ویران ،کشادہ ، پُراسرار سڑک تھی ۔ ہلکی نرم ، سُبک ہوا اس کے مَساموں میں ایسے سرایت کر رہی تھی کہ رک رک کر پورے بدن میں جھُرجھُری اٹھنے لگتی تھی ۔ صبح ہونے تک وہ اسٹیشن پر بیٹھی آتی جاتی ٹرین اور اس سے اترتے چڑھتے مسافروں کو تک رہی تھی______کتنا خوبصورت جوڑا ہے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا ، لڑکی غیرملکی معلوم ہو رہی تھی ۔ اسٹیشن پر لگے کھمبے کی آڑ سے نوجوان کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ تھوڑی دیر کے لئے جبَّار کا چہرہ اس کی نگاہوں میں پِھر گیا____نہیں!____اس کے خیال کو ذہن سے جَھٹک کر وہ کھڑی ہو گئی ۔اس نے ایک ہاتھ میں بیگ اٹھایا ، دوسرے ہاتھ سے "لڈو" کو سینے سے چِمٹاۓ بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی تانگے پر جا بیٹھی ۔ تانگہ اوبڑ کھابڑ راستوں پر ہچکولے کھاتا ہوا کچھ ہی دیر میں" چندن پور" کے "بڑے ٹولے" پر پہنچ گیا ۔ گھوڑے کی ہنہناہٹ پر بی بی جی نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور چلّاتی ہوئی باہر آئی _____ارے چندا ! تو یہاں ____بی بی جی چندا نہیں " چمپا " ،" چندا" نام سنتے ہی اس کا دل چاہا کہ کاش ! لوگوں کے دلوں میں اتنی وسعت ہوتی جس میں چندا کی ہمدردی اور اس کا ظرف سما سکتا ۔ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ چندا کے احسانوں سے اس کا دل پھٹ جائے گا ۔
اچھا اچھا چل اندر آ____" اور یہ____؟، " اس جملے پہ وہ چونکی____ یہ ؟____یہ میں یتیم خانے سے لائی ۔ دیکھو نا کتنا سندر ہے ۔ "لڈو" کو بی بی جی کی گود میں رکھ کر ، وہ سرعت سے کمرے میں گئی ، ڈوپٹے کا "لڈّو" بنایا اور منہ میں بھر کر، دل کھول کر اتنا روئی کہ اس کا سارا غم دُھل گیا ہو ۔
ارے کدھر گئ____" چندا " ؟
"چندا" نہیں بی بی جی " چمپا"
اچھا !۔۔۔۔ادھر آ !
بس زرا سا زخم پر مرحم رکھ رہی تھی، ہاتھ میں ٹیوب لئے وہ باہر نکلی ۔
ادھر لا میں لگاتی ہوں۔۔۔۔۔کتنا خون رِس رہا ہے ۔۔۔۔زخم تو بڑا گہرا ہے۔
ہاں بی بی جی وہ اندھیرے میں دِکھا نہیں ، ٹھوکر لگ گئی ، تھوڑا وقت لگے گا یہ بھی ٹھیک ہو جائے گا ۔
ہاں "لاڈو" بدن کے زخم کا کیا ، کچھ دن تکلیف ہوتی ہے پھر ٹھیک ہو جاتا، بس نشان باقی رہتے ہیں۔ بی بی جی نے اس کے سر پر کسی مسیحا کی طرح ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
ہاں بی بی جی بالکل درست فرمایا آپ نے، لیکن کچھ زخموں کے نشان ایسے ہوتے ہیں ، جن پر جنتا چاہو لیپ مل لو، بس ایک نظر پڑنے کی دیر ہوتی ہے، فوراََ کِھل اٹھتےہیں۔ یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ ایسے کِھل اٹھا تھا جیسے"چمپا کا پھول"۔۔۔۔۔
کتنی گہری باتیں کرنے لگی ہے، یہ سب چھوڑ ۔۔۔۔اپنی ماں کے بارے میں بتا ! اور تیرا بابا کیسا ہے اور محّلے والے؟
سب ٹھیک ہی ہوں گے بی بی جی ، اس نے بے دلی سے کہا ۔
کیوں تو ان کے______؟
بی بی جی میں کچھ سالوں سے اپنی سہیلی "چندا"کے یہاں تھی ، وہاں جانے کے بعد کسی سے رابطہ نہیں رہا ۔ لہو کے دو بوند اس کی آنکھوں سے ٹپکے اور مٹی میں مل گئے ۔
اچھا چل اداس مت ہو ، تو مُرجھائی ہوئی مجھے تو بالکل بھی نہیں جچتی ہے ۔ لالہ آتا ہے تو کہے دیتی ہوں تیرے جانے کا کچھ انتجام کر دیگا ۔
نہیں بی بی جی میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی اور یہ لالہ کون ہے ______؟ بی بی جی کے پاؤں پکڑتے ہوئے اس نے سوال کیا______؟
تیرا بھائی ہے ، بس یہی تو ایک ہے میرا "لالہ" ، اس گھر میں میرے اور اس کے علاوہ اور تیسرا ہے ہی کون _____؟ گھر کی مالکن آئے تو کچھ خوشیاں بھی آئیں ، زمانہ ہوا بچوں کی کِلکاریاں سنے ہوئے ، اب تو آئی ہے تو تھوڑی رونق لگے گی ۔
ہاں بی بی جی تم اداس کیوں ہوتی ہو " لال" ہے نا اپنا، اس گھر کی رونق بڑھاۓ گا ۔
ربیع کی آدھی فصل کٹ چکی تھی ۔ چمپا کھیت میں گری بالیاں چُن چُن کر اپنے ڈوپٹے میں رکھ رہی تھی ۔ قدموں کی آہٹ پر نظر اوپر اٹھائی تو دیکھا ، داؤود اکرم اس کو بڑے غور سے دیکھتا ہوا گزر رہا تھا ۔ اس کے علاقے کے لوگ اس کو " کندن " کہتے تھے ۔ چمپا کے لئے وہ جگہ اور وہاں کے لوگ بالکل نئے تھے۔
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ایسے کیا دیکھ رہا ؟ ،کبھی جوانی چڑھتی کوئی لڑکی نہیں دیکھی کیا ؟
یہ چمٹا دیکھ رہا ہے؟ ، ان میں تیری خَنّاس آنکھوں کے پَپوٹوں کو دبا کر ایسے اوپر اٹھاؤنگی ، کہ تیری پُتلیاں زندگی بھر کے لئے اوپر ہی اُٹھ جائیں گی چمپا نے غصّے سے کہا______کندن نے اپنا گَمچھا مضبوطی سے سر پر باندھا ، چپل ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے کہا_____چل آ ! نکال کر تو دکھا، میں بھی تو دیکھوں ،تجھ میں کتنی ہمّت ہے ، یہ کہہ اس نے تیز دوڑ لگائی____ چمپا کا چہرہ غصّے کے مارے زرد سے سرخ ہو گیا۔ اس نے پچھاڑنے کے لئے دور تک اس کا پیچھا کیا ۔ ربیع کی کٹی ہوئی نوکیلی جڑیں اس کے تلوؤں میں چبھنے لگیں تو رک گئی ۔ اس کی سانسں پھولنے لگی تھی ۔دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اور گردن نیچے کی طرف ، وہ ایسے جُھکی ہوئی تھی گویا شُکرانے کا رکوع کر رہی ہو_______جب بدن ڈھیلا پڑ گیا تو کھیت کی منڈیر پر بیٹھ گئی، اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بھاگ کر دوسری اور ربیع کی بالیوں کی اؤٹ میں چھپ کر جھانک رہا تھا۔
ابھی تو رُک_____تجھے تو میں بتاتی ہوں____
چمپا نے مٹی کا ایک بڑا سا ڈھیلا اٹھایا اور زور سے ہوا میں اچھالتے ہوئے اس کی طرف پھینکا ۔ اس اچانک حملے کے لئے وہ تیار نہ تھا ۔ اپنے بچاؤ کے لئے اس نے ایک بار پھر تیز دوڑ لگائی اور ٹولے کے قریب جا پہنچا -
کمبخت کہیں کا ۔۔۔۔۔۔ شیطان کا سایہ۔۔۔۔۔۔۔
ہاۓۓ _______اب تک تو آدھے سے زیادہ کھیت کی بالیاں میں نے چن لی ہوتیں ۔ اس نے سارا وقت برباد کر دیا ۔ دیکھنے سے تو بڑا سیدھا لگتا ہے اور حرکتیں تو بس______اُوپر والے کی پناہ ہو ایسی بھولی صورتوں کے شیطانی کرم سے وہ بُدبُداتی ہوئی کھڑی ہوئی اور بے فکر ، تھکے ماندے شام کو اپنے گھونسلوں میں واپس لوٹ رہے پرندوں کی طرح سُست رفتار قدموں سے گھر کی جانب لوٹ گئ ۔
چمپا اگلے دن کھیت میں پہنچی تو ، پُروا دھول اڑاتے ہوئے رُک رُک کر چل رہی تھی۔ربیع کی سنہری بالیاں ارذل العمر کو پہنچ گئی تھیں ۔ جب پروا اپنے ساتھ دھول لے کر تیزی سے ان کے سامنے سے گزرتی تو ایسے تَلملانے لگتیں گویا موت کا فرشتہ ان کے سامنے روح قبض کرنے کے لئے کھڑا ہو ۔ گرم ہوا کی تپش سے اس کے ہونٹوں پر پپڑی جم گئی تھی ، باوجود اس کے وہ کیکٹس کی طرح ترشے ہوئے ، گلابی رنگ کے کتنے خوبصورت لگ رہے تھے ۔ اب چمپا نہ تو کسی کی " لاڈو " تھی نہ وہ کتابیں تھیں ، نہ وہ جملے تھے جن کے نوکِ پلک وہ کبھی سنوارتی تھی ۔ اس کی کُل کائنات چار افراد پر مشتمل وہ گھر ، کچھ کھیت کھلیان اور وہاں کے لوگوں کی باتیں تھیں جو سننے میں بھلے " بھلی" نہ لگیں لیکن ان میں " فریب " نہیں تھا ۔
شام ہونے کو تھی ، وہ اپنے معمول کے مطابق گھر لوٹ رہی تھی۔ ارے چمپا میری بات تو سنتی جا ! کندن کھیت کی منڈیر پر اس کے پیچھے پیچھے تیز قدموں سے ایسے بھاگ رہا تھا ، جیسے جھوٹ موٹ کی روٹھ کر بھاگتی ہوئی ماں کی ناراضگی کے ڈر سے، بچہ روتا ہوا اس کو پکڑنے کے لئے پیچھا کرتا ہے ۔
چمپا ایک منٹ کے لئے رک کر میری بات سن لے۔۔۔۔!
کیوں سنو! تیری بات؟ ، تو لگتا کیا ہے میرا ؟ بھیڑیا کا روپ ہو تم ، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھررا گئ!
ارے چمپا تو مجھے غلط سمجھ رہی ہے ۔ میں کسی جنگل سے اٹھ کر تھوڑی آیا ہوں ۔ اسی انسانوں کی بستی کا باسی ہوں ۔ اس کی آواز میں عاجزی تھی ۔
تم صرف دیکھنے کے لئے انسان ہو ، حقیقت میں تمہارے اندر ایک خونخوار جانور ہے ۔ جس کو انسانیت کا خون چوس کر اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کرنے سے مطلب ہے ۔ اب اس کی آواز میں زہر بھر گیا تھا ۔
دیکھ کندن ! میں تیری کوئی بات نہیں سنونگی ۔ بار بار میرا پیچھا کرنا بند کر دے ،اور اگر تو چاہتا ہے کہ میں تیری آنکھیں نکال کر چیل کوؤں کو کِھلا دوں تو اس کے لئے بھی تیار ہو جا ، وہ کہتے ہوئے گھر کے اندر آگئ ۔
بی بی جی "لال" ابھی تک کھیل کر گھر نہیں آیا ؟ سمئے بھی زیادہ ہو گیا ، ہینڈ پمپ سے پانی نکالتے ہوئے اس نے سوال کیا ۔۔۔؟ آتا ہی ہوگا سرتاج کے یاں کے بالک بھی ابھی نہیں آۓ بی بی جی نے اطمینان کی سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔چمپا کے جواب میں سکون تھا ۔
چمپا آج کھیت سے واپسی میں بڑی دیر کر دی، بی بی جی نے کہا تو "ہاں لاگَت ہے محنت جیادہ ہُوَت ہے، پھر تو اس بار پھَصَل دوگنی ہوگی کیوں ری چمپا" لالہ جی نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
نہیں لالہ جی ، تھوڑا وقت سُستانے میں نکل گیا ۔ اور یہ تو رب ہی جانتا ہے ، کہ فصل دوگنی ہو گی یا چوگُنِّی، چمپا نے اپنے ایک پیر سے دوسرے پیر کو رگڑ کر مٹی صاف کرتے ہوئے مطمئین انداز میں کہا ۔
چمپا ویسے تیرا تیرے رب پر بڑا پکّا بھروسہ ہے ۔ ہر بات اسی کے سہارے ڈالتی ہے ۔
ہاں لالہ ! انسانوں میں وہ اچھائیاں کہاں کہ اس پر بھروسہ کیا جائے یا اس سے امیدیں لگائی جائیں ، دروازے کے قریب پوال کے بنے بیڑھے پر بیٹھتے ہوئے اس نے بیزاری سے کہا۔۔۔
چمپا تو اتنی گہرئی باتیں کرتی ہے کہ میرے تو سر سے پِھر جاتی ہیں۔ ذرا ہلکی پھلکی باتیں کیا کر، مجھے بھی تو سمجھ میں آۓ، کہ آخر تیرے من کے اندر کیا ہے بی بی جی نے کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
چمپا نے کھانے کی پلیٹ اٹھائی اور مسکراتے ہوئے سرپٹ اندر کمرے میں چلی گئی ۔
لے چمپا تیرا "لال" بھی آگیا بی بی جی نے لڈّو کے کپڑوں سے مٹی چھاڑ کر اندر بھیجتے ہوئے کہا ۔
چمپا نے لڈّو کو سینے سے لگایا ، اس کو چِمکارا ،ہاتھ پاؤں دُھل کر اپنے منہ میں ڈالتے نوالےکو اپنے "لال" کو کھلا کر تھپکی دی اور سلا دیا۔ بہت دیر تک اس کے معصوم چہرے کو غور سے دیکھتی رہی ، اس کی آنکھوں میں آنسوں بھر آۓ، آگے بڑھی اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔ گرم آنسوؤں کا ایک قطرہ اس کی پیشانی پر ٹپکا تو ایسا محسوس ہوا گویا لہو کے رنگ میں جلنے کا نشان چھوڑ گیا ہو۔
دوسرے دن صبح سویرے ہی چمپا کھیت میں پہنچ گئی تھی ۔ کندن نے جیسے ہی چمپا کو اپنی چَھت سے کھیت کی طرف جاتے دیکھا تو ، گَمچھا سر پر ڈالا اور کھیت کی طرف چل دیا ۔ پیروں کی آہٹ پر چمپا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جّھنجھلا گئ، تو ؟
کندن ! توووو۔۔۔! تو اپنی گری ہوئی حرکت سے باز نہیں آۓگا ؟
ہاں نہیں آؤنگا______بتا کیا کرے گی؟چمپا نے زور کا تماچہ اس کے داہنے گال پر رسید کر دیا۔ میں یہ بھی کر سکتی ہوں۔ وہ چکرا کر نیچے گرا، جب سُدھ ہوئی تو اُٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھا،چمپا اپنے کھیت میں گَندُم کی بالیاں چننے میں لگی تھی ۔ اُس پر اس حادثے کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا ۔ کندن نے ہمت کی اور اٹھ کر دوبارہ اس کے پاس آیا ۔
چمپا دیکھ بس تو ایک بار میری بات سن لے، میں تیری ہر بات مان لونگا۔ وہ اِنکساری سے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔
چمپا کو اپنی زیادتی کا احساس تھا ۔ کسی اور کے حصے کا زہر کسی اور کو پلا کر وہ اور زیادہ گنہگار نہیں بننا چاہتی تھی ۔
ہاں بول ! میں بھی تو سنوں ایسی کیا بات ہے ، کہ جس کے لئے تو خود کو اتنا ذلیل کر رہا ہے ؟
چمپا ! چمپا تو شادی کیوں نہیں کرلیتی ہے ؟ تو "لڈّو" کو یتیم خانے سے لاکر پال پوس رہی ہے ۔ اگر بڑا ہوکر اس نے تجھے اپنی ماں سویکار نہیں۔۔۔۔۔
چمپا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔کیوں ! اس معصوم نے تیرا کیا بگاڑا ہے؟ اور میں نا تو تیری کمائی کا کھاتی ہوں ، نا ہی تو میرا خرچ اٹھاتا ہے۔ اس کی آواز میں تلخی بھی تھی اور بچتاوا بھی ۔
وہ کسی کا کیا بگاڑے گا بھلا ، وہ معصوم ہے۔ وہ تو میں چاہتا ہوں کہ میری قسمت بن جائے، تو میری ہی کمائی کھاۓ اور میں ہی تیرا خرچ اٹھاؤں ۔ تیرے بدلے کی ساری محنت میں ہی کروں ، میرے لیے تیرا ساتھ ہونا ہی سب کچھ ہو ۔ کندن کی نگاہیں نیچی تھیں ۔ دونوں ہاتھ مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جکڑے، اس کے ماتھے سے لگے ہوئے تھے ۔چمپا کا سر نیچے جُھکا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں مضبوطی سے بند تھیں۔آنکھوں کے سامنے گُپ اندھیرا تھا۔ چمپا کےآنسوں کُندن کے دونوں ہاتھوں کی مضبوط گرفت پر ٹپکنے لگے۔ کندن کے ہاتھوں کی گرفت لمحہ بہ لمحہ مضبوط ہوتی جارہی تھی گویا وہ اس کے سب آنسوؤں کو، اپنے ہاتھوں کی بند سیپ میں قید کرکے ،ان موتیوں کی قیمت بتانا چاہتا ہو ، جن کو وہ آنسوؤں میں بہا رہی تھی ۔
چمپا بِنا کچھ بولےخاموشی سے گھر کی طرف لوٹ گئ ۔ وہ بہت تھکی ہوئی تھی،بستر پر لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ایک بار پھر جبَّار کا خیال اس کے حواس پر چھا گیا تھا ۔ اور گزرا ہوا وہ وقت،جب صبح کاذب کی ہلکی ہلکی سفیدی چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر بستر سے اٹھی تھی،اٹھتے ہی اس کی نظر سامنے دیوار سے لگی ٹک ٹک کرتی گھڑی پر پڑی، ٹھیک چار بج کر چار منٹ ہو رہے تھے۔جلدی سے نہا کر اس نے اپنی پسند کا سرخ رنگ کا جوڑا پہن لیا ، جس پر کہیں کہیں سفید تار سے، سفید موتیوں کو گوتھ کر بوٹے بناۓ گئے تھے۔ ایسے خوبصورت معلوم ہو رہے تھےجیسے سرخ مخمل کی کیاریوں میں سفید گلاب اُگ آۓ ہوں۔ اس نے سوچا جلدی نکل جانا بہتر ہے،اس سے پہلے کہ صبح صادق سے پہلے کا اندھیرا چھاجاۓ ۔ اس نے جلدبازی میں اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں اور ایک کتاب بیگ میں ڈالی ، پانی کا ایک گھونٹ پی کر ، کچھ ضروری کام سے جارہی ہوں کہتے ہوئے تیز رفتار قدموں سے باہر نکل گئی۔ سڑک پر سنّاٹا چھایا ہوا تھا ، جیسے اس کے سوا پوری ممبئی سو رہی ہو ، دور دور تک کوئی سواری نظر نہیں آرہی تھی ، نیند آنکھوں سے دور تھی۔ وہ سڑک کے کنارے بنی ایک دوکان کی سیڑھیوں پر، جلتے بلب کے نیچے بیٹھ گئی ۔ سواری کی منتظر نگاہیں امید کے سہارے ، سڑک کے دوسرے کنارے تک جاکر مایوس واپس لوٹ گئیں ، تو اس نے بیگ کھول کر کتاب نکالی،صفحات پلٹنے لگی تبھی اس کی نگاہ اس جملے پر پڑی_______
" ڈی ایچ لارنس کہتا ہے کہ"جنس سے پیار کرنے کے لئے جنس کا احترام کرنا لازمی ہے"
دنیا یہی ہے کہ لوگ مرد اور عورت کی ذات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے معیار تک پہنچنے کی جدوجہد نہیں کرتے۔ اگر انسانیت کا معیار سمجھ میں آجائے تو عورت مرد کے اور مرد عورت کے معیار پر خودبخود پورے اترجاتے ۔ خیررر۔۔۔۔۔ وہ بیگ ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے کھڑی ہوئی اور کاندھے پر ڈالتے ہوئے سڑک کی اور جھانک کر دیکھنے لگی، دور سے ہلکی دھندلی بتی اس کی طرف آتی ہوئی نظر آئی ۔۔۔چلو شکر ہے۔۔۔۔۔
آٹو آکر اس کے سامنے رکی۔۔۔ہاں میڈم کہاں جانا ہے؟
انکل کمرہ نمبر۔۔۔۔۔ نہیں نہیں وہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ کیا نام تھا ؟ ایک منٹ،بس ایک منٹ انکل یہ کہتے ہوئے اس نے بیگ سے اپنا موبائل فون نکالا ۔ ارے ہاں یاد آیا۔۔۔۔۔پہاڑی علاقہ " میرا دماغ بھی نا ! بھولنے کی عادت ہو گئ ہے وہ بُدبُدائی۔۔۔
پہاڑی علاقہ؟ وہ تو یہاں سے تھوڑی دوری پر ہے۔ وہاں کے تو چار سو چالیس روپے ہوں گے، آٹو والے نے پورے دعوے سے کہا۔۔۔
چار سو چالیس روپے؟ اس کی نگاہوں میں حیرت دوڑ گئی ۔
یہ تو بہت زیادہ ہیں ، وہاں کا کرایہ اتنا زیادہ تو نہیں ہے ، آپ دو سو لے لیجئے ۔
"میں چار سو سے ایک پیسے میں کم نہیں کرےگا"
اررےے انکل دو سو لے لیجئے ۔۔۔
کہا نا تین سو اسّی سے ایک پیسے کم نہیں۔۔۔۔صبح کا کرایا بڑھ جاتا ہے میڈم، ابھی جلدی کوئی سواری بھی نہیں ملےگا تم کا اس نے اکتاہٹ سے کہا ۔۔۔۔
تین سو اسّی۔۔۔۔۔؟ارے انکل !۔۔۔۔۔۔۔۔دیر ہو رہی ہے ورنہ۔۔۔۔۔! اچھا چلئے دو سو پچاس لے لیجئے نہ میری بات اوپر نہ آپ کےبول بڑے ۔
اچھا میڈم چلو اب جلدی بیٹھو۔۔۔۔۔
آٹو میں تیزی سے بیٹھتے ہی اس نے اپنا موبائل فون نکالا ۔ اوہ دو مِسڈ کال، اس نے جلدی سے واپس فون ملایا۔۔۔۔۔کہاں پہنچی ہو ؟ دوسری جانب سے آنے والی آواز سے انتظار کی شدّت کا صاف انداز لگایا جا سکتا تھا ۔
ہاں بس کوئی بیس پچیس منٹ اور۔۔۔۔۔۔
اچھا کمرہ نمبر تو یاد ہے نا۔۔۔۔۔؟؟
ہم م م چار سو کچھ۔۔۔۔۔۔! کیا ہے ایک دفعہ پھر بتانا ؟
اچھا چلو رہنے دو، نیچے پہنچ کر فون کرنا میں لینے آجاؤنگا ۔ دوسری جانب سے آواز آئی اور فون کٹ گیا ۔
"ایسا لاگ راہا ہے میڈم کہیں نوکری کے لئے جا رہا ہے ، لیکن ایتنا سویرے ؟ اس نے سامنے لگے آئنہ میں اس کو دیکھتے ہوئے بڑی معصومیت سے کہا۔"
ارے نہیں انکل ! وہ اتنی صبح آفس کون جاتا ہے،بس کچھ چھ۔۔۔۔۔۔
دونوں کے درمیان سکوت قائم تھا۔جیسے جیسے "پہاڑی علاقہ" کی دوری کم ہورہی تھی ،اس کی ڈھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ہلکا ہلکا اندھیرا تھا، آٹو شانت راستے پر فراٹے بھرتی ہوئی چل رہی تھی۔ لال بتی جلی تو ایک چوراہے پر دو تین آٹو رکشے اس کے دائیں بائیں آکر رکیں۔آٹو والے نے ان کو مڑ کر دیکھا،ان میں کون تھا۔۔۔۔۔؟ کچھ دکھائی نہیں دیا کیونکہ ان کا پردہ دونوں جانب سے بند تھا۔
میڈم ! "پہاڑی علاقہ" میں کوٹھے ووٹھے بھی ہیں کیا ؟ ، ہری بتی پر اس نے آٹو چلاتے ہوئے پوچھا ۔
کوٹھے؟چمپا نے سوالیہ انداز میں کہا ، ارے ہاں وہی جہاں وہ جانتی ہیں نا ! ارے وہی ،کیا تو کیہتے ہیں انہیں ، وہ جو ناچتی ہیں اور اس کے پیسے لیتی ہیں۔کِیا تو کہتے ہیں انہیں، وہ اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے سوال کر رہا تھا یا پھر طنزیہ انداز میں بتا رہا تھا۔ چمپا سمجھ نہیں پائی ، پھر تھوڑی دیر میں اچانک تیز سے اس کی زبان سے نکلا "طِطِ طِوائف" ۔
"طَوائففف"چمپا حیرانی سے اس کو تکنے لگی ۔
"ارے میڈم اتنا حیران کیوں ہوتا ہے؟؟ ، کبی کبی تو کوئی کوئی میڈم آدھی رات کو جاتا ہے اور صبح ہونے سے پہلے آتا ہے ، پہلا سمئے میں میڈم ساب جی نہ چاہتے ہوئے بھی روٹی کے لئے پیسے کے کھاتر جاتا تھا،لیکن اب یہ سب میڈم آپنا خوسی کے لئے جاتا ہے۔ اوسکا پیسے کا کوئی مجبوری ناہی رہتا ہے۔" یہ کہتے ہوئے اس کی دماغ کی نسیں پھول کر کانپنے لگیں،آواز میں زہر پھیل گیا، آنکھوں میں سرخ خون دوڑنے لگا ۔
انکل کیا یہ سچ۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کا جملہ مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ آٹو والے نے ایک بڑے سے لوہے کے بنے گیٹ کے سامنے آٹو روکتے ہوئے کہا،لو میڈم یہ رہا "پہاڑی علاقہ"_________
گیٹ پر کھڑے گارڑ نے آٹو میں جھانک کر دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے گیٹ کے اندر جانے کی اجازت دے دی ۔ تقریباً ایک کلومیٹر اندر جانے کے بعد ہی آٹو کے سامنے ہوا میں ایک ہاتھ لہرایا،پردہ کی آڑ سے اس کی پہچان مشکل تھی۔انکل نے آٹو روک کر کہا جی بھائی ساب پہاڑی علاقے کی سواری ہے ۔
ہاں بس یہیں روک دو جبَّار کی آواز میں رعب تھا۔
تمہیں کیسے معلوم چمپا نے سرعت سےآٹو سے اترتے ہوئے سوال کیا؟؟
"لائو لوکیشن"اس نے اس کی گردن کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا تو اسے ایسا محسوس ہوا گویا، فکر کی ایک روشنی لمحہ بھر کے لئے اس کے اندر روشن ہوکر بجھ گئی ۔
"پہاڑی علاقہ" واقعی بہت خوبصورت تھا۔ ایک طرف اونچے پہاڑ سے گھرا ہوا ، دور تک جاتی لمبی اور چوڑی سڑکیں،ان سڑکوں کی دونوں جانب زرد ، سفید ،گلابی اور نیم گلابی پھولوں کی جُھکی ہوئی جھاڑیاں تھیں ۔ جگہ جگہ پڑے اونچے پتھروں پر وہاں کے باسی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ چھوٹی سے بڑی ہر شئے خوبصورتی کا جامہ پہنے ہوئی تھی ۔ لیکن سوائے جبَّار کے اس کو ہر شئے سے دہشت اور خوف لگ رہا تھا ۔ اس سے پہلے وہ ایک مہینے میں جبَّار سے پروجیکٹ کے سلسلے میں کم وبیش پانچ سے چھ دفعہ مل چکی تھی ۔آج آسمان پر بادلوں کی سیاہ گھٹائیں تیز گڑگڑاہٹ کے ساتھ بھاگ رہی تھیں۔ دیوقامت درختوں کے درمیان سے بجلی کے کوندے اس طرح آزاد ہو رہے تھے، جیسے کسی شکاری کے قدموں کی چاپ سن کرجھاڑیوں میں چھپا خرگوش اچانک چھلانگ لگا کر بھاگے ۔اس کے اوسان خطا ہو رہے تھے ۔ یہ گرج اور چمک کیسا رنگ لانے والی تھی کسی کو علم نہیں تھا ۔ اور اس کا سفر کافی طویل تھا۔ ایک روشنی کے بعد بجلی ایسے کڑکی جیسے شیر کی چنگھاڑ ، وہ سہم کر دیوار سے جالگی ،جبَّار کے ہاتھوں نے اس کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا " چمپا تم بہت معصوم ہو___اور______؟ چمپا نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا تو______ اس نے اس کی آنکھوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا_______" تمہیں معلوم نہیں______؟ کہ تمہاری آنکھوں میں بسے سارے خواب میرے ہیں،اورتمہارا میری زندگی میں ہمیشہ شامل رہنا ہی گویا میرے لئے ہر شئےکا حاصل ہے "
جبَّار کے اس جملے سے اس کی آنکھوں میں خوشی، اور جسم کے پور پور میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی ۔ اس لمحے جبَّار کو ایسا محسوس ہوا کہ چمپا کی آنکھوں سے ایک تیز روشنی پھوٹی اور پورا کمرہ نور سے بھر گیا ہو ۔ بہت کم وقت میں ہی اس نے چمپا کا اعتماد جیت لیا تھا۔کیونکہ______ وہ اپنے آپ سے اور اپنے حسن کی دلفریبی سے باخبر تھا۔اس کو اچھی طرح معلوم تھا، کہ کس پہ کون سا وار ،کب ،کہاں ،کیسے، اور کس طرح ، کتنا زیادہ اثر کرتا ہے ۔ یہ اس کے حسن کی سب سے بڑی طاقت تھی،اور شاید یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکیاں جن کو وہ " معصوم" کا لقب دے کر اپنے جھانسے میں کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا، یا پھر وہ بیوقوف لڑکیاں جو اس کو سمجھے بنا اس کے قریب آجاتی تھیں ۔ اور پھر انہیں رنڈی ،فاحشہ جسم فروش اور نہ جانے کن کن لفظوں سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن ______جبَّار کے تکیے کے نیچے رکھی ان " معصوم اور بیوقوف" لڑکیوں کی ان گنت تصویریں ، ان تصویروں کا کیا_______؟ اور اس کا وہ جملہ جس نے اعتماد و اعتبار کی بَکھیا کو اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا_______؟
" دیکھو صاحب! چمپا ہو یا صنوبر بس لڑکی ہو "
اور وہ لمحہ جس کو وہ کبھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی ، اس کی نگاہوں میں گردش کر رہا تھا۔ "جب جبَّار نے اس اجازت نامہ پر دستخط کیا تھا اور اب دائیاں اس کے بدن سے خون کے متحرّک لوتھڑے کو بےرحمی سے باہر نکال کر پھینک دیں گی، بچا کُھچا خون نالیوں میں بہا دیا جائے گا ، اور پھر کوئی مہتر آکر بے دردی سے ان نالیوں کو کھُرچ کر، اس کے ثبوت کو مٹانے کی کوشش کرے گا ۔ وہ ہسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی سوچ رہی تھی۔ اس کا کلیجہ منہ کو آجاتا ۔ آنکھوں سے لہو ٹپکنے لگتا، اپنے اندر پل رہی ننھی سی جان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے کہتی ،کیسا راکشش تھا،جس کے نطفے کو میں نے اپنی کوکھ میں جگہ دی ہے ۔ زمین نے مجھے اپنے اندر دبوچ کیوں نہیں لیا تھا____؟ میری پسلیوں کا چورا چورا کیوں نہیں کردیا تھا____؟، آسمان سے آگ کیوں نہیں برس پڑی تھی____؟ بادلوں نے مجھ پرکھولتے پانی کی برسات کیوں نہیں کی تھی____؟ میرے بدن کو آبلوں اور پھوڑوں میں تبدیل کیوں نہیں کردیا تھا_____؟ ، لیکن اب______؟ نہیں_______میں ! اب ایسا بالکل بھی نہیں چاہتی______ بالکل بھی نہیں ______، کھدر کے دوپٹے میں منہ چھپائے وہ سسکیاں بھر رہی تھی ، کہ اس نے اپنے کاندھے پر کسی مسیحا کا ہاتھ محسوس کیا تھا۔ جس نے اس کے آنسوؤں کو پونچھ کر گلے سے لگایاتھا۔ اپنے گھر میں پناہ دی تھی ۔ جس نے اس کے بابا کی طرح " لاڈو " کہہ کر پکارا تھا ۔ جس نے " لال" کے ماتھے پر اپنے ہاتھوں سے نظر کا ٹیکا لگایا تھا اور اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے کہا تھا________
" یہ لے____میں نے تیری ماں کی عِفّت کا ٹیکا اس کے ماتھے سے ہٹا کر تیرے ماتھے پر لگا دیا ، اور یاد رکھ ! اگر سماج تجھے ناجائز ، تیری ماں کو فاحشہ کہتا ہے تو میں اس کو وحشی کہتی ہوں، جس کے نقطے سے تیرا وجود جڑا ہے ۔ اگر تیرا خون کا لوتھڑا اس کی کوکھ میں ہوتا، تو وہ اس کو کاٹ کر پھینکنے سے نہیں کتراتا ،کیونکہ پورے سماج کی ذلت ، تیرا درد ، اور اس وحشی کا فریب سہنے کی طاقت صرف میری " لاڈو " میں ہے۔ "
وہ مسیحا کوئی اور نہیں ایک دائی تھی______وہ "چندا " تھی ، اور وہ کڑوے ، تلخ لیکن سچے الفاظ اسی مسیحا کے تھے،جن کو کہتے وقت نہ جانے کتنی دفعہ اس کی ہچکیاں بندھی تھیں ۔ اور آنکھوں کی سرخ نسیں جن کو آنسوؤں کے سیلاب نے اپنی جگہ سے کئ مرتبہ اتھّل پتھّل کیا تھا ۔
یہ سب سوچ کر اس کے ذہن میں بجلی سی کوند جاتی ہے۔ اور ایک تیز روشنی اس کے احساس کی آنکھوں کو ایسے خیرہ کر جاتی ہے، کہ لمحہ بھر کے جمود کے بعد ، اس کے ذہن و دل بلکہ بدن کے ہر انگ میں بھیانک گُپ اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ لیکن آج اس میں پرانے کھرنڈ پڑے زخموں کو نوچ کر خود کو لہولہان کرنے کی تاب نہیں تھی ۔
آج کی صبح چمپا صرف چمپا نہیں تھی، اس میں بسنے والی عورت " موم " تھی، جس کو کندن کے جذبات نے پگھلا دیا تھا ۔اس نے اپنی آنکھ اور مُٹھی کی مضبوط گرفت کو آہستہ آہستہ ایسے کھولا جیسے صبح کاذب دھیرے دھیرے چَھٹ رہی تھی، اور آنکھوں کے سامنے صبح صادق کی روشن صبح نمودار ہو رہی تھی ۔ جو ایک لمبی ، ملول، غمزدہ، پشیمان، تأسف و تلافی سے پُر رات کی ڈراؤنی تیرگی سے گزر کر نمودار ہو رہی تھی۔۔۔اور آج "کندن" صرف کندن نہیں بلکہ" داؤود اکرم " بھی تھا ۔ جو ڈولی کے ساتھ صرف " چمپا " کو نہیں بلکہ" لاڈو " کو لینے آیا تھا ۔ کندن کے لئے نہ تو چمپا غلیظ تھی، نہ ہی اس کا " لال" کسی فاحشہ کی کھیت کی پیداوار تھا، بلکہ اس نے اپنی چاہت کا معیار " احترام" پر قائم کیا تھا ۔ اس نے چمپا کے "جسم و جان سے آگے" بڑھ کر اس کی روح کو سمجھا تھا۔ وہ جانتا تھا "لاڈو "جسم کی جاذبیت پر نہیں مرتی ہے بلکہ روح کی پاکیزگی چاہتی ہے۔
"ہمیشہ خوش رہو ، افسردگی تم پر اچھی نہیں لگتی ہے ۔ رہی بات گناہوں کی ، تو " دیکھ چمپا ! " گناہوں کو معاف کرنا تو رب کے ذمے ہے لوگوں کے نہیں ، تو تیرے لئے اس سے بہتر کیا ہی ہو سکتا ہے ، کہ تو دل سے توبہ کر اور اچھائی میں آگے نکل جا ، یہاں تک کہ تیری اچھائیاں تیری برائیوں پر غالب آجائیں ۔" اور ہم تو مسافر ہیں،چلتے رہتے ہیں۔ ہر راہگزر منزل محسوس ہوتی ہے، اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھوکریں کھاتے ہیں ، ہوش آتا ہے اور آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ منزل کہاں ہے کسے معلوم ۔" کندن نے چمپا کا ہاتھ تھام کر کہا اور وہ دونوں ایک نئ منزل کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ اب چمپا کہاں پر ہوگی ۔ کندن اس کے ساتھ ہوگا بھی کہ نہیں ، وہ زندہ بھی ہوگی یا أجل نے اس کی زندگی کو جیت لیا ہوگا۔ لیکن اس کی زندگی کا وہ باب ، آج بھی میرے ذہن کے تاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے ، جس میں جبَّار کا فریب اور " پہاڑی علاقہ" کے ہسپتال میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں، اور "جس کی روح ایک عورت کا احترام کرنے والے مرد کی تلاش میں بھٹک رہی تھی۔
میری نگاہیں آج بھی اس زردی مائل چہرے کی" تلاش " میں گمُ ہیں_______
افسانہ نگار (ثروت فروغ)
شعبہء تعلیم
جامعہ ملیہ اسلامیہ